Header Ads

Header ADS

I am a widow woman میں ایک بیوہ عورت ہوں

 I am a widow woman میں ایک بیوہ عورت ہوں ۔۔۔ on Sindhi Madhosh

 تمھاری جنت تمھیں مبارک

 I am a widow woman میں ایک بیوہ عورت ہوں ۔۔۔

اٹھارہ سال قبل میرا شوہر جہاد کے لئے افغانستان گیا تھا۔

پھر لوٹ کے نہیں آیا

بس اتنا ہوا کہ محلے کے مولوی صاحب چند پڑوسیوں کے ساتھ آکر یہ اطلاع دے گے کہ تمھارے میاں نے تم لوگوں کے لئے جنت میں مکان تعمیر کر دیا ہے۔

کیسا مکان ؟

کہاں ہے وہ۔۔؟

میں نے سوال کیا۔۔
وہ کافروں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا مگر اس نے مرتے ہوئے بھی کئی کافر جہنم رسید کر دئیے تھے اس بات کا ہمیں فخر ہے۔۔
اچھا ۔۔
میں اتنا کہہ سکی۔۔
پڑوسی آنے لگے۔۔
کوئی مبارک باد دیتا تو کوئی رو کر تسلی۔۔
مولوی صاحب کی بیوی بھی آئی
کہنے لگی تم خوش قسمت ہو کہ تمھارے مرد نے تم لوگوں کے لیے جنت میں ٹھکانہ کر دیا ہے۔۔
میں خاموش رہی۔۔
ٹھکانہ ۔۔۔؟
اور دنیا میں میری زمہ دار ؟
اپنے بچے کی زمہ داری ؟
اسکا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کم عمر تھی
روایات کی پابند تھی۔۔
میں جس علاقے سے تھی وہاں کی عورت اپنے مرد سے کہیں زیادہ اپنی روایات کی پابند ہوتی ہے۔
میں بھی ان میں سے ایک تھی۔۔
3 روز تک سب آتے رہے۔۔
" دور دراز " سے بھی لوگ ملنے آئے اور میرے شہید میاں کی بہادری کے قصے سناتے رہے۔
اور پھر سب لوگ چلے گئے۔۔
بچہ کیسے پالا یہ میں جانتی ہوں
نہ ہی مولوی صاحب جانتے تھے نہ ہی اسکی بیوی
نہ ہی وہ لوگ جو " دور دراز " سے آئے تھے
جنہوں نے میرے شوہر کی بہادری جواں مردی کے قصے مجھے سنائے وہ بھی نہیں جانتے کہ میں نے کیسے اور کہاں کہاں مزدوری کی۔
کسی نے میری مدد نہ کی۔۔
جوانی کی بیوہ اور ایک بیٹے کی ماں
کیسے زندہ تھے ہم دونوں یہ خدا جانتا ہے۔۔
میرے شہید نے اچھا کام کیا ہوگا۔
جنت میں گیا ہوگا
یہ تو اللہ کو معلوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے واسطے جنت میں گھر بنایا ہوگا کہ نہیں۔۔
یہ بھی اللہ کو معلوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اس دنیا میں فی الحال ہمیں اکیلا چھوڑ گیا۔
انیس سالہ بیوہ اور ایک سال کا بیٹا۔
میں پڑھی لکھی نہیں تھی، مگر بچہ پڑھایا لکھایا جوان کیا۔
بچے نے بھی محنت کی مزدوری کی۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی میں پہنچ گیا
۔
آج پھر چند پڑوسی میرے دروزے پر آئے ہیں۔
مبارک باد دینے۔
کہنے لگے تمہارا بچہ بہادر تھا۔
اس نے یونیورسٹی کے کئی دوسرے بچوں کی اکیلے جان بچائی۔
غمگین مت ہو۔۔
رونا بھی نہیں،
تم ایک شہید کی ماں ہو۔۔۔
میرے لال نے دس گولیاں کھائیں۔
مگر رب کو یہ ہی منظور تھا۔۔
پہلے شہید کی بیوہ اور اب شہید کی ماں
وہ لوگ کون تھے جنہوں نے میرے بچے کو ایسے مارا۔۔
آج معلوم پڑا کہ وہ بھی مسلمان تھے۔
کسی مدرسے تعلق رکھتے تھے۔۔
سنا ہے کہ انکا بھی کوئی مقصد تھا۔
آج میں پھر سے بے سہارا ہوں
اور اب یہ سوچ رہی ہوں کہ میرے شوہر نے کیا واقعی جنت میں گھر بنایا ؟؟
یا وہ لوگ جو میرے بچے کے قاتل ہیں ۔۔۔؟؟؟
مجھے ڈر ہے کہ میرے بچے کے قاتلوں کے گھر بھی کوئی گیا ہوگا۔۔۔۔
کسی نے انکی ماؤں کو، بیواؤں کو بھی کہا ہوگا کہ تمھارا شہید جنت میں گیا ہے۔
اور اس نے وہاں تم لوگوں کے لئے گھر بنایا ہے ۔۔۔۔۔
میرے زہن میں کئی سوال ہیں۔۔۔
میں آج پھر سڑک کنارے اکیلی بیٹھی ہوں
فرق صرف اتنا ہے کہ
اٹھارہ انیس سال قبل ایک بچہ ساتھ تھا
آج وہ بھی نہیں
کوئی مجھے بتاتا کیوں نہیں کہ میں کہاں جاؤں ؟
میرا کوئی ٹھکانہ دنیا میں کیوں نہیں بنتا ؟؟
میں ہاتھ جوڑتی ہوں
مجھ بیوہ کا ٹھکانہ دنیا میں بنا دو
مجھے تمھاری جنت سے غرض نہیں
تمھاری جنت تمہیں مبارک

تحریر : رضا شاہ

No comments

Powered by Blogger.