Header Ads

Header ADS

Why do we fight ہم لڑتے کیوں ہیں؟

 Why do we fight ہم لڑتے کیوں ہیں؟ on Sindhi Madhosh

 Why do we fight ہم لڑتے کیوں ہیں؟

سوشل سائیکولوجسٹ مظفر شریف نے گروہی چپقلش کی وجہ جاننے کے لئے ایک تجربہ کیا۔ ان کے سمرکیمپ میں گیارہ اور بارہ سال کی عمر کے بائیس بچے آئے جو ایک ہی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے تھے لیکن ایک دوسرے کو پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ ان کو گیارہ بچوں کے دو گروپس میں ان کو تقسیم کیا گیا۔ اوکلوہوما کے ایک سٹیٹ پارک میں ان کو الگ کیمپوں میں رکھا گیا۔
تجربے کے پہلے مرحلے میں ایک ہفتے کے لئے دونوں ٹیموں کے ممبرز کا آپس میں تعلق مضبوط کرنے کی ایکٹیویٹیز دونوں گروپس کو الگ تھلک رکھ کروائی گئیں۔ اس میں اکٹھے پہاڑیوں کی چڑھائی، تیراکی جیسے کھیل تھے۔ ایک ٹیم نے اپنے نام کا انتخاب 'عقاب' اور دوسرے نے 'ناگ' کیا۔ ان ناموں کے جھنڈے اور قمیضیں انہوں نے خود تیار کیں۔
اگلے ہفتے میں دوسرا مرحلہ ان کے مقابلے کا تھا اور اس میں ایسی کھیلیں تھیں جو ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے تھیں۔ اس میں رسہ کشی، بیس بال جیسے مقابلے تھے اور ان میں صرف جیتنے والے کے لئے انعام تھے۔ مخالفین سے مقابلے کی اس فضا میں دوران ان کا ایک دوسرے سے رویہ بد سے بدتر ہوتا گیا۔ ایک دوسرے پر آوازے کسنے سے شروع ہو کر پھر گالی گلوچ تک پہنچ گیا۔ پھر یہاں تک بات آ گئی کہ عقابوں نے ناگوں کا جھنڈا جلا دیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے اگلے روز ناگوں نے عقابوں کا کیمپ اکھاڑ دیا، بستر الٹا دیا اور ان کی چیزیں اٹھا کر لے گئے۔ چند ہی روز میں یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ ان کو زبردستی الگ کرنا پڑا۔
دو روز ان کو ٹھنڈا ہونے کے بعد سب کو ایک سروے دیا گیا جس میں گروپ کے بائیس ممبران کے بارے میں رائے پوچھی گئی۔ تقریبا تمام ممبرز نے اپنے گروپ کے بچوں کے لئے اچھی اور مخالف گروپ کے بچوں کے لئے بری رائے دی۔
یہاں پر یہ یاد رکھیں کہ یہ عام بچے تھے جو کسی مشکل بچپن کا شکار نہیں تھے۔ ان خاندانوں سے تھے جہاں دونوں والدین موجود تھے۔ تمام سفید فام تھے اور ایک ہی مذہبی گروپ سے تعلق تھا اور مڈل کلاس گھرانوں کے تھے۔
اس کے بعد اس تجربے کو بدل کر کئی جگہ دہرایا گیا۔ مثلا، بیروت میں لطفی ضیاب نے اس قسم کے تجربے میں دو ٹیمز بنائیں۔، سرخ اور نیلی۔ جن میں سے ہر ٹیم میں پانچ مسیحی اور چار مسلمان بچے تھے۔ بیروت کے پرتناؤ حالات میں کئے جانے والے اس تجربے میں توقع کے مطابق جلد ہی لڑائی پھوٹ پڑی۔ لیکن مسیحی اور مسلمان بچوں کی نہیں بلکہ نیلی اور سرخ ٹیموں کی۔
اب ایک کہاںی اصل دنیا کی۔ دنیا میں جو ممالک ایک دوسرے سے انتہائی نفرت رکھتے ہیں، ان میں سرِ فہرست آرمینیا اور آذر بائیجان ہیں۔ اگر آپ ان ممالک کو نہیں جانتے تو شاید یہی نہ سمجھ پائیں کہ اتنی نفرت کیوں۔ یہ دونوں اپنی تاریخ کا حصہ ایک ملک کے طور پر بھی گزار چکے ہیں۔ یہ نفرت کس قدر زیادہ ہے، اس کے لئے ایک واقعہ۔ 2004 میں نیٹو کی ٹریننگ کے دوران ایک آذربائیجانی فوجی رامل سافاروف نے ایک آرمینی فوجی کو اس کو سوتے وقت کلہاڑی کے وار کر کے صرف اس لئے قتل کر دیا کہ وہ آرمینیا سے تعلق رکھتا ہے۔ ہنگری میں کئے گئے اس جرم میں رامِل کو عمر قید کی سزا ہو گئی۔ چھ سال قید ہنگری کی جیل میں گزارنے کے بعد آذربائیجان حکومت کے اصرار پر رامِل کو باقی قید بھگتنے اس کے آبائی ملک منتقل کیا گیا۔ آذربائیجان پہنچتے ہی نہ صرف رامِل کی سزا فوری معاف کر دی گئی بلکہ اس کا ملک میں ہیرو کے طور پر استقبال ہوا۔ حکومت کی طرف سے گھر دیا گیا۔ فوج میں ترقی دے کر بحالی ہوئی۔ صدر نے اس پر 2013 میں پبلک بیان دیا کہ کسی بھی آذربائیجانی شہری کے لئے آرمینیا کے کسی باشندے کو قتل کرنا جرم نہیں۔
ہم ایک بار اپنے اوپر شناخت کا کوئی بھی لیبل لگا لیں، خواہ اس کا تعلق اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنے سے ہو یا پھر کھیلوں کی کسی ٹیم کو، شناخت کسی نظریے سے بنا لیں یا اپنے رہنے والی جگہ سے، رنگ یا قوم سے یا پھر نیلے اور سرخ رنگ کی ٹیم سے، اس کے بعد ہمارا رویہ ایسا کیوں ہو جاتا ہے کہ وہ لوگ جو ہم سے فرق شناخت رکھتے ہیں، وہ ہماری شناخت رکھنے والوں سے کمتر لگنا شروع ہو جاتے ہیں، اپنے گروہ کی ہر بات اچھی اور دوسرے کی بری کیوں لگتی ہے، یہ سوشل سائیکلوجی کا ٹاپک ہے اور اس کو بیان کرنے والی ایک تھیوری رئیلسٹک گروپ کنفلکٹ تھیوری ہے۔ اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ اپنے سے مخالف گروہ کا مذاق اڑانا اور ان کو نقصان پہنچانا ہمارے اپنے گروہی تعلق کو مضبوط کرتا ہے اور گروپ میں رہنا ہمیشہ ہماری طاقت رہی ہے۔ ایسا کرنے میں جو ہارمون اہم کردار ادا کرتی ہے، وہ وہی ہے جو ہمیں کسی چیز کے نشے میں مبتلا کرتی ہے یعنی اگر شعوری طور پر یہ سائیکل توڑنے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ تیزی کی طرف جاتا ہے۔
اجتماعی طور پر اس کو توڑا کیسے جائے؟ اسی تجربے کے اگلے مرحلے سے یہ پتا لگا کہ صرف رابطہ رکھنے یا سطحی تعلق سے یہ رویہ نہیں بدلتا۔ جب تک کسی مشترکہ مقصد میں تعاون کا آغاز نہ کیا جائے، گروہی تعصب ویسا ہی رہتا ہے۔
گروہی رویوں پر سائیکولوجسٹ جاناتھن ہائیٹ کا تبصرہ
Our minds unite us into teams, divide us against other teams, and blind us to the truth.
اس تھیوری کے تعارف کے لئے
https://en.wikipedia.org/wiki/Realistic_conflict_theory
گروہی شناخت کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/In-group_favoritism
جس تجربے کا ذکر کیا، اس کو پوری تفصیل سے جاننے کے لئے
https://youarenotsosmart.com/…/the-illusion-of-asymmetric-…/
اس ٹاپک پر لکھی جانے والی اچھی کتاب
Us and Them: The Science of Identity by David Berebby
بشکریہ۔ وہار

No comments

Powered by Blogger.