Near Death Experience قریب الوقت موت
Near Death Experience قریب الوقت موت کیا ہے؟؟
بعض اوقات قریب الوقت مریض (مثال کے طور پر ایسے مریض جن کا دل دورے کی وجہ سے بند ہو گیا ہو) بعد میں تندرست ہو جاتے ہیں - ان میں سے کچھ لوگ اس تجربے کی تفصیلات بتلاتے ہیں جب ان پر قریب المرگ کی حالت طاری تھی - ان تجربات میں کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اس تجربے سے گذرنے والا ہر شخص بتلاتا ہے - مثلاً یہ کہ یہ تجربہ انتہائی پرسکون اور پرمسرت تھا - وہ اپنے جسم کے اوپر ہوا میں منڈلا رہے تھے - انہیں ایک روشنی کی سرنگ دکھائی دی جو آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہی تھی - پھر وہ اس سرنگ میں داخل ہو گئے اور ایک انتہائی پرسکون جگہ پہنچ گئے جہان ان کے بچپن کے بچھڑے ہوے ساتھی موجود تھے (جن میں ماں باپ، رشتہ دار، بچپن کے دوست وغیرہ شامل ہیں) - کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو معاشرتی ہوتی ہیں - مثلاً عیسائیوں کو حضرت عیسیٰ خدا کے روپ میں ملتے ہیں جو تخت پر بیٹھے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں - ہندوؤں کو ان کے خدا ملتے ہیں - مسلمانون کو حضور یا ولیوں کا دیدار ہوتا ہے
سائنس کی رو سے ان سب کی توجیہہ یہی ہے کہ جب دماغ کو خون کی سپلائی منقطع ہو جائے تو کچھ نیورونز اپنا کام بند کر دیتے ہیں اور کچھ بے ہنگم فائرنگ کرنے لگتے ہیں - دماغ کثیر تعداد میں نیوروٹرانسمٹرز خارج کرتا ہے جس وجہ سے سکون اور خوشی کا احساس ہوتا ہے - سب سے زیادہ اثر visual cortex پر پڑتا ہے جہاں بے ہنگم فائرنگ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے visual field کے مرکز میں انتہائی تیز روشنی محسوس ہوتی ہے جب کے اس کے ارد گرد اندھیرا محسوس ہوتا ہے - ہمارے دماغ کا وہ حصہ ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ 'ہم' اپنے جسم کے اندر ہیں کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جس وجہ سے ایسے مریضوں کو اکثر out of body تجربات ہوتے ہیں - یہ تمام کیفیتیں لیبارٹری میں کنٹرولڈ کنڈیشنز میں پیدا کی جا سکتی ہیں - خاص طور پر out of body experience پیدا کرنا حیرتناک حد تک آسان ہے اور لیبارٹری میں آسانی سے پیدا کیا جا سکتا ہے
کیا حقیقی موت بھی اتنی خوشگوار ہوتی ہے؟؟ یا اس میں تکلیف کا احساس ہوتا ہے؟؟
'حقیقی موت' کے بعد کوئی شخص واپس نہیں آتا اور ہمیں نہیں بتلاتا کہ اس پر کیا گذری - چنانچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس صورت میں بھی موت خوشگوار ہوتی ہے یا نہیں - البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ 'حقیقی موت' اور near death میں صرف یہی فرق ہے کہ near death میں مریض کی جان بچا لی جاتی ہے - اگر بالفرض ایسے مریضوں کو بر وقت طبی امدا نہ پہنچتی تو ان میں سے بہت سے جان بحق ہو جاتے - چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ موت کے قریب دماغ کثیر تعداد میں نیوروٹرانسمٹر خارج کرتا ہے جس سے اس بات کا غالب امکان ہے کہ اکثر لوگ موت کے وقت پرسکون ہوتے ہیں اور انہیں تکلیف کا احساس نہیں ہوتا
لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ لوگ بہت خوفناک تجربات بھی رپورٹ کرتے ہیں - اگر ہم عقائد سے ہٹ کر صرف سائنس کے نکتہِ نگاہ سے اس مسئلے کو دیکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ شدید ترین سٹریس کے حالات میں (جو کہ موت سے فوراً پہلے درپیش ہوتی ہے) دماغ کیا ردِ عمل دکھاتا ہے اس کا دارومدار جینیات پر ہے - زیادہ تر لوگوں کے دماغ کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ ان حالات میں ایسے نیوروٹرانسمٹرز خارج کرتے ہیں جس سے دماغ سکوں کا احساس پیدا کرتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا دماغ ایسی صورت میں سٹریس ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے خوف کا احساس پیدا ہوتا ہے - چنانچہ دونوں صورتوں میں تجربہ مختلف ہو گا
بشکریہ قدیر قریشی
No comments